Her husband, Parsoo, invited some guests to his home. When he told her to talk sweet with their guest, she started thinking about sweets and candies and situation became embarrassing.
Story: Meethi Meethi Baatain
Story-teller: Imtiaz Mateen
Topic: Manner and Values
برسوں پہلے کی بات ہے کہ ایک قصبے میں ایک پٹواری رہتا تھا جس کا نام پرسو تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پرسو پٹواری نے علاقے کے تحصیلدار اور ان کی بیگم کو اپنے گھر کھانے کی دعوت پر بلا لیا۔ تحصیلدار صاحب نے پہلے تو ٹالا لیکن پھر دعوت قبول کرلی۔
پرسو نے اس دعوت کی خوب تیاری کی کہ کسی چیزکی کمی نہ رہ جائے۔ گھر پر چونا پھروایا اور گھر تو کیا گلی کی بھی اچھی طرح صفائی کروائی۔ دعوت والے دن پرسو نے اپنی بیوی سے کہا کہ تحصیلدار صاحب کی بیوی بھی آرہی ہیں اس لیے کوئی بے وقوفی کی بات مت کرنا بلکہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا اور ہاں کوئی چمکیلے بھاری کپڑے اور زیور پہن لینا تاکہ انھیں پتا چلے کہ پٹواری کی بیوی بھی اچھے کپڑے اور زیور پہنتی ہے۔ یہ ہدایات دینے کے بعد پرسو دعوت کے دوسرے انتظامات دیکھنے کے لیے باہر بیٹھک میں چلا گیا اور بیوی نے تیاری شروع کردی۔
دوپہر میں تحصیلدار صاحب اپنی بیگم کے ساتھ پرسو کے گھر پہنچ گئے۔ پرسو نے انھیں بیٹھک میں بٹھایا اور بیگم کو اندر گھر میں بھیج دیا۔ مہمانوں کی آمد کا سنتے ہی پرسو کی بیوی کو اپنے شوہر کی ہدایات یاد آئیں کہ بے وقوفی کی کوئی بات نہیں کرنا ، چمکیلے بھاری کپڑے پہن لینا اور تحصیلدار صاحب کی بیوی سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا۔
یہی سوچ کر پرسو کی بیوی نے جو پہلے ہی منھ پر سرخی پوڈر لگا کر اور سونے کے بہت ساری زیورات پہن کر تیار ہوچکی تھی ، بکس میں رکھی ہوئی اپنی نئی چمکیلی رضائی نکال کر چادر کی جگہ اوڑھ لی اور میٹھی میٹھی باتوں کے بارے میں سوچتی ہوئی گھر میں آنے والی مہمان سے جاکر ملی۔
تحصیلدار کی بیگم نے اپنی میزبان کو رضائی اوڑھے دیکھ کر سوچا کہ ان کے ہاں یہی طریقہ ہوتا ہوگا ، یا انھیں زیادہ سردی لگ رہی ہوگی لیکن پھر بھی وہ اس حلیے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔ سلام دعا کے بعد تحصیلدار کی بیگم نے پوچھا ، ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
پٹواری کی بیوی نے ہنستے ہوئے کہا ، ’’جی، ربڑی۔‘‘
’’آپ کے شوہر کا نام تو لالو ہے نا؟‘‘ تحصیلدار کی بیوی نے بات آگے بڑھانے کے لیے سوال کیا۔
’’لالو نہیں ہے جی بلکہ پرسو ہے۔ ویسے یہ نام تو دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔ گھر میں تو اُن کا نام پیٹھا ہے۔‘‘ پرسو کی بیوی نے سوچتے ہوئے کہا۔
تحصیلدار کی بیگم کو نام عجیب سا لگا۔ اُس نے بات آگے بڑھائی، ’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘
’’ابھی تو صرف پانچ ہی بچے ہیں۔‘‘ پرسو کی بیوی نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا ، ماشاء اللہ۔ کیا کیا نام ہیں ان کے ؟‘‘ تحصیلدار کی بیگم نے پوچھا۔
’’سب سے بڑا لڑکا ہے لڈو ، پھر پیڑا ، پھر دو لڑکیاں ہیں برفی اور چم چم اور ان کے بعد سب سے چھوٹا بیٹا قلا قند۔‘‘ پرسو کی بیوی نے خوش ہوتے ہوئے کہا، اور دل ہی دل میں سوچا کہ وہ کامیابی سے میٹھی میٹھی باتیں کررہی ہے۔
ابھی کھانا نکالنے میں تھوڑی دیر تھی اور پٹواری نے بچوں کو سختی سے تاکید کر رکھی تھی کہ وہ مہمانوں کے سامنے کوئی شرارت نہ کریں، تمیز سے مہمانوں کو سلام کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ جائیں اور پھر خاموشی سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔ اگر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھائیں تو کھانا شروع کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھوئیں، جب کھانا کھائیں تو منھ سے چپ چپ کی آواز نہ نکلے اور نہ ہی انگلیاں سالن میں ڈوب کر گندی ہوں۔ پلیٹ میں ضرورت سے زیادہ کھانا نہ نکالیں اور کھانا اپنے سامنے سے کھائیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد ہاتھ دھوئیں اور کلی کریں۔
جب پٹواری کی بیوی نے تحصیلدار کی بیوی سے میٹھی میٹھی باتیں شروع کیں تو بچوں نے پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چپکے چپکے کھوں کھوں کرکے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی اور پھر زور زور سے ہنسنے لگے اور اٹھ کر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔
تحصیلدار کی بیگم بھی اس صورتحال کو بھانپ چکی تھیں۔ اُنھوں نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے پوچھا ، ’’اس گھر میں آپ لوگوں کے ساتھ اور کون کون رہتا ہے؟‘‘
پٹواری کی بیوی بولی: ’’ساس رس ملائی اور سسر سوہن حلوا رہتے ہیں لیکن آج کل وہ ٹنڈو میں اپنے بیٹے مکھن بڑے کے گھر گئے ہوئے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی اُس کے ہاں جڑواں ریوڑیاں، میرا مطلب ہے جڑواں لڑکیاں ہوئی ہیں۔ دو نندیں ہیں، جلیبی اور امرتی۔ اُن کی شادی ہوگئی ہے لیکن وہ بھی اپنے بتاشے جیسے بچوں اور مُرمُرے جیسے شوہروں کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بھائی ہیں حبشی حلوہ اور اُن کی بیوی کالی گلاب جامن ، وہ اوپر کی منزل میں رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا یہ بتایئے کہ آپ کو ہمارے گھر آکر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ پٹواری کی بیوی نے تحصیلدار کی بیوی سے پوچھا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی، ’’بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ میں کسی حلوائی کی دکان میں آگئی ہوں۔‘‘
’’ہاں ، ہمارے گھر میں تو ہر وقت شیرے اور شیرینی جیسی ہی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ پٹواری کی بیوی نے خوش ہوکر کہا۔
’’بہت خوب !‘‘ بیگم بولیں۔ باتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور بیگم پٹواری کی بیوی کی میٹھی میٹھی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔ انھوں نے بھی پٹواری کے بچوں کی طرح باقاعدہ ہنسنا شروع کردیا تھا۔ اسی دوران کھانا کھایا گیا اور مہمان رخصت ہوگئے۔
دعوت ختم ہونے کے بعد جب پٹواری نے اپنی بیوی سے آکر پوچھا کہ بیگم صاحبہ سے تم نے کیا باتیں کیں تو اُس نے ساری بات چیت کہہ سنائی۔ اپنی بیوی کی باتیں سن کر پرسو پٹواری نے اپنا سر پیٹ لیا۔ کچھ دن بعد وہ پٹواری ، تحصیلدار صاحب کے دفتر گیا تاکہ دعوت اور اپنی گھر والی سے ملاقات کے بارے میں جان سکے تو پہلے تو تحصیلدار صاحب مسکرائے، پھر کہا کہ میری بیوی کہہ رہی تھی کہ اسے کسی دعوت میں شرکت کرکے اتنا مزا نہیں آیا جتنا آپ کے گھر میں آیا ہے۔
میٹھی میٹھی باتیں - پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں
کہانی: میٹھی میٹھی باتیں
کہانی نگار: امتیاز متین
موضوع: ذخیرۂ الفاظ، اخلاقیات و اقدار، آدابِ مہمان نوازی، آدابِ گفتگو
آموزش:
پرسو نے اس دعوت کی خوب تیاری کی کہ کسی چیزکی کمی نہ رہ جائے۔ گھر پر چونا پھروایا اور گھر تو کیا گلی کی بھی اچھی طرح صفائی کروائی۔ دعوت والے دن پرسو نے اپنی بیوی سے کہا کہ تحصیلدار صاحب کی بیوی بھی آرہی ہیں اس لیے کوئی بے وقوفی کی بات مت کرنا بلکہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا اور ہاں کوئی چمکیلے بھاری کپڑے اور زیور پہن لینا تاکہ انھیں پتا چلے کہ پٹواری کی بیوی بھی اچھے کپڑے اور زیور پہنتی ہے۔ یہ ہدایات دینے کے بعد پرسو دعوت کے دوسرے انتظامات دیکھنے کے لیے باہر بیٹھک میں چلا گیا اور بیوی نے تیاری شروع کردی۔
دوپہر میں تحصیلدار صاحب اپنی بیگم کے ساتھ پرسو کے گھر پہنچ گئے۔ پرسو نے انھیں بیٹھک میں بٹھایا اور بیگم کو اندر گھر میں بھیج دیا۔ مہمانوں کی آمد کا سنتے ہی پرسو کی بیوی کو اپنے شوہر کی ہدایات یاد آئیں کہ بے وقوفی کی کوئی بات نہیں کرنا ، چمکیلے بھاری کپڑے پہن لینا اور تحصیلدار صاحب کی بیوی سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا۔
یہی سوچ کر پرسو کی بیوی نے جو پہلے ہی منھ پر سرخی پوڈر لگا کر اور سونے کے بہت ساری زیورات پہن کر تیار ہوچکی تھی ، بکس میں رکھی ہوئی اپنی نئی چمکیلی رضائی نکال کر چادر کی جگہ اوڑھ لی اور میٹھی میٹھی باتوں کے بارے میں سوچتی ہوئی گھر میں آنے والی مہمان سے جاکر ملی۔
تحصیلدار کی بیگم نے اپنی میزبان کو رضائی اوڑھے دیکھ کر سوچا کہ ان کے ہاں یہی طریقہ ہوتا ہوگا ، یا انھیں زیادہ سردی لگ رہی ہوگی لیکن پھر بھی وہ اس حلیے کو دیکھ کر مسکرا دیں۔ سلام دعا کے بعد تحصیلدار کی بیگم نے پوچھا ، ’’آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
پٹواری کی بیوی نے ہنستے ہوئے کہا ، ’’جی، ربڑی۔‘‘
’’آپ کے شوہر کا نام تو لالو ہے نا؟‘‘ تحصیلدار کی بیوی نے بات آگے بڑھانے کے لیے سوال کیا۔
’’لالو نہیں ہے جی بلکہ پرسو ہے۔ ویسے یہ نام تو دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔ گھر میں تو اُن کا نام پیٹھا ہے۔‘‘ پرسو کی بیوی نے سوچتے ہوئے کہا۔
تحصیلدار کی بیگم کو نام عجیب سا لگا۔ اُس نے بات آگے بڑھائی، ’’آپ کے کتنے بچے ہیں؟‘‘
’’ابھی تو صرف پانچ ہی بچے ہیں۔‘‘ پرسو کی بیوی نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اچھا ، ماشاء اللہ۔ کیا کیا نام ہیں ان کے ؟‘‘ تحصیلدار کی بیگم نے پوچھا۔
’’سب سے بڑا لڑکا ہے لڈو ، پھر پیڑا ، پھر دو لڑکیاں ہیں برفی اور چم چم اور ان کے بعد سب سے چھوٹا بیٹا قلا قند۔‘‘ پرسو کی بیوی نے خوش ہوتے ہوئے کہا، اور دل ہی دل میں سوچا کہ وہ کامیابی سے میٹھی میٹھی باتیں کررہی ہے۔
ابھی کھانا نکالنے میں تھوڑی دیر تھی اور پٹواری نے بچوں کو سختی سے تاکید کر رکھی تھی کہ وہ مہمانوں کے سامنے کوئی شرارت نہ کریں، تمیز سے مہمانوں کو سلام کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ جائیں اور پھر خاموشی سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جائیں۔ اگر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھائیں تو کھانا شروع کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ اچھی طرح صابن سے دھوئیں، جب کھانا کھائیں تو منھ سے چپ چپ کی آواز نہ نکلے اور نہ ہی انگلیاں سالن میں ڈوب کر گندی ہوں۔ پلیٹ میں ضرورت سے زیادہ کھانا نہ نکالیں اور کھانا اپنے سامنے سے کھائیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد ہاتھ دھوئیں اور کلی کریں۔
جب پٹواری کی بیوی نے تحصیلدار کی بیوی سے میٹھی میٹھی باتیں شروع کیں تو بچوں نے پہلے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چپکے چپکے کھوں کھوں کرکے ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کی اور پھر زور زور سے ہنسنے لگے اور اٹھ کر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔
تحصیلدار کی بیگم بھی اس صورتحال کو بھانپ چکی تھیں۔ اُنھوں نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے پوچھا ، ’’اس گھر میں آپ لوگوں کے ساتھ اور کون کون رہتا ہے؟‘‘
پٹواری کی بیوی بولی: ’’ساس رس ملائی اور سسر سوہن حلوا رہتے ہیں لیکن آج کل وہ ٹنڈو میں اپنے بیٹے مکھن بڑے کے گھر گئے ہوئے ہیں، ابھی کچھ دن پہلے ہی اُس کے ہاں جڑواں ریوڑیاں، میرا مطلب ہے جڑواں لڑکیاں ہوئی ہیں۔ دو نندیں ہیں، جلیبی اور امرتی۔ اُن کی شادی ہوگئی ہے لیکن وہ بھی اپنے بتاشے جیسے بچوں اور مُرمُرے جیسے شوہروں کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے بھائی ہیں حبشی حلوہ اور اُن کی بیوی کالی گلاب جامن ، وہ اوپر کی منزل میں رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا یہ بتایئے کہ آپ کو ہمارے گھر آکر کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ پٹواری کی بیوی نے تحصیلدار کی بیوی سے پوچھا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی، ’’بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ میں کسی حلوائی کی دکان میں آگئی ہوں۔‘‘
’’ہاں ، ہمارے گھر میں تو ہر وقت شیرے اور شیرینی جیسی ہی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ پٹواری کی بیوی نے خوش ہوکر کہا۔
’’بہت خوب !‘‘ بیگم بولیں۔ باتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور بیگم پٹواری کی بیوی کی میٹھی میٹھی باتوں پر مسکرا رہی تھیں۔ انھوں نے بھی پٹواری کے بچوں کی طرح باقاعدہ ہنسنا شروع کردیا تھا۔ اسی دوران کھانا کھایا گیا اور مہمان رخصت ہوگئے۔
دعوت ختم ہونے کے بعد جب پٹواری نے اپنی بیوی سے آکر پوچھا کہ بیگم صاحبہ سے تم نے کیا باتیں کیں تو اُس نے ساری بات چیت کہہ سنائی۔ اپنی بیوی کی باتیں سن کر پرسو پٹواری نے اپنا سر پیٹ لیا۔ کچھ دن بعد وہ پٹواری ، تحصیلدار صاحب کے دفتر گیا تاکہ دعوت اور اپنی گھر والی سے ملاقات کے بارے میں جان سکے تو پہلے تو تحصیلدار صاحب مسکرائے، پھر کہا کہ میری بیوی کہہ رہی تھی کہ اسے کسی دعوت میں شرکت کرکے اتنا مزا نہیں آیا جتنا آپ کے گھر میں آیا ہے۔
ہدایات برائے اساتذہ/ والدین/ کہانی خواں:
- بچوں سے پوچھیں کہ اُنھیں کون کون سی مٹھائیوں کے نام آتے ہیں؟ اُنھوں نے کون سی مٹھائیاں کھائی ہوئی ہیں؟ کون سی مٹھائی سب سے زیادہ پسند ہے؟
- کہانی کے جس حصے میں پرسو پٹواری کی اپنے بچوں کو ہدایات کا ذکر ہے کہ مہمان کے سامنے کس طرح رہا جائے اور کھانا کیسے کھایا جائے، وہاں بچوں سے بھی سوال جواب کیے جاسکتے ہیں؛ مثلاً، کیا وہ بھی ان ہدایات پر عمل کرتے ہیں، مہمان کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں، وغیرہ۔
- بچوں سے پوچھیں کہ کیا کبھی اُنھیں مہمانوں کے سامنے بہت زیادہ ہنسی آئی ہے؟
- پرسو پٹواری کی بیوی کی باتوں کے ذکر کے بعد بچوں سے پوچھیں کہ اگر وہ اُن سے ایسی باتیں کرتے تو اُن کے تاثرات کیا ہوتے اور وہ اُسے کیا جواب دیتے؟
- کہانی کے اختتامی حصے میں جب پٹواری، تحصیلدار صاحب کے پاس دعوت کے بارے میں اُن کی رائے معلوم کرنے کے لیے جاتا ہے تو پہلے بچوں سے دریافت کریں کہ اُن کے خیال میں تحصیلدار صاحب کیا جواب دیں گے؟ غصہ کریں گے، نوکری سے نکال دیں گے، یا خوش ہوں گے؟
میٹھی میٹھی باتیں - پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے کلک کریں
کہانی: میٹھی میٹھی باتیں
کہانی نگار: امتیاز متین
موضوع: ذخیرۂ الفاظ، اخلاقیات و اقدار، آدابِ مہمان نوازی، آدابِ گفتگو
آموزش:
- مٹھائیوں اور دیگر میٹھی اشیا کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ
- مہمان سے اچھی طرح پیش آنے کا درس
- کھانا کھانے کے آداب کا بیان
- سب سے اہم یہ کہ اصل اہمیت خلوص کی ہوتی ہے
بہت دلچسپ کہانی ہے۔
ReplyDeleteliked much; an intellectual effort towards children education which has vanished now a days in upbringing of our children
ReplyDelete