Wizard of Oz - 01 The Cyclone

The Wonderful Wizard of Oz is a children's fairytale, written by Layman Frank Baum and illustrated by W. W. Denslow. The book consists of 24 chapters. AntarMantar presents Urdu translation of one new chapter weekly. This is the translation of Chapter 1 "The Cyclone".

Download PDF of The Wonderful Wizard of Oz - Chapter 1: The Cyclone
Trouble in reading Urdu? Click Here

اوز کا نرالا جادوگر
پہلا باب : آندھی
ڈوروتھی (Dorothy)، کنساس (Kansas) کے شان دار سبزہ زاروں کے بیچ اپنے چچا ہنری (Henry) اور اُن کی بیوی چچی ایم (Em) کے ساتھ رہتی تھی۔ چچا ہنری کسان تھے۔ اُن کا گھر بہت چھوٹا تھا اور کباڑہ لکڑی سے بنا تھا جسے کسی دور دراز علاقے سے لایا گیا تھا۔ وہ گھر کیا تھا، صرف چار دیواریں تھیں، ایک فرش تھا اور ایک چھت، جو کُل ملا کر ایک کمرہ بناتے تھے۔ یہ کمرہ ایک زنگ آلود چولھے، برتن رکھنے کے لیے چھوٹی الماری، ایک میز، تین یا چار کرسیوں اور بستروں پر مشتمل تھا۔ ایک کونے میں چچا ہنری اور چچی ایم کا بڑا سا بستر تھا اور دوسرے کونے میں ڈوروتھی کا چھوٹا سا بستر۔وہاں نہ کوئی دو چھتی تھی اور نہ ہی کوئی تہ خانہ؛ ہاں، بس ایک چھوٹا سا گڑھا تھا جو زمین ہی میں کیا گیا تھا۔ کبھی کبھی اتنی تیز آندھی آتی تھی جس میں پورے پورے گھروں کو اپنی جڑ سے اُکھاڑ کر رکھنے کی طاقت ہوتی تھی۔ ایسے میں پورا خاندان اُس گڑھے نما تہ خانے میں چھپ جاتا تھا۔ تہ خانے کے منھ پر ایک تختہ رکھا رہتا تھا اور اُس کے اندر سیڑھیاں تھیں جو اُس چھوٹے اور تاریک سوراخ کی تہ تک پہنچاتی تھیں۔
جب ڈوروتھی دروازے پر کھڑی ہوتی اور اپنے اردگرد دیکھا کرتی تو اُسے ہر طرف گھاس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ دور اُفق تک (جہاں زمین اور آسمان ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں)، نہ کوئی درخت اور نہ ہی کوئی گھر دِکھائی دیتا۔ سورج نے  زرخیز زمین کو اتنی جلایا تھا کہ اب اُس کی رنگت بھوری ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ گھاس بھی سبز نہیں رہی تھی اور سورج کی گرمی سہتے سہتے اُس کے کے کنارے ہر طرف پھیلے رنگ کی طرح بھورے ہوچکے تھے۔ کسی زمانے میں گھر پر رنگ کیا گیا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سورج کی گرمی سے رنگ پھول گیا اور بارشوں نے اُسے دھو ڈالا، اور اب گھر بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح بھورا ہوچکا تھا۔
جب چچی ایم یہاں رہنے کے لیے آئی تھیں تو وہ نوجوان اور خوب صورت خاتون تھیں۔ سورج اور ہوا نے اُنھیں بھی تبدیل کردیا تھا۔ اُن کی آنکھوں کی چمک غایب ہوگئی تھی اور دھیرے دھیرے اُن کا رنگ بھورا ہوگیا تھا؛ اُن کے گالوں اور ہونٹوں کی سرخی بھی اب برقرار نہیں رہی تھی اور وہ بھی بھورے ہوچکے تھے۔ چچی اب دبلی اور کم زور ہوگئی تھیں اور اُنھوں نے مسکرانا چھوڑ دیا تھا۔ جب ڈوروتھی یتیم ہوگئی اور اُن کے ہاں آئی، تو چچی ایم اُس کی ہنسی سے چونک جایا کرتیں اور اتنا ڈر جاتیں کہ جب بھی ڈوروتھی کی آواز اُن کے کانوں میں آتی، وہ اپنا دِل تھام لیتیں۔ وہ اکثر ننھی ڈوروتھی کو دیکھا کرتی اور حیران ہوا کرتی تھیں کہ بھلا ایسی کون سی بات ہے جس پر اسے ہنسی آسکتی ہے۔
 چچا ہنری کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ اُنھیں بھی کبھی ہنسی نہیں آتی تھی۔ وہ صبح سے لے کر رات تک کھیت میں سخت محنت کرتے تھے اور وہ بھول چکے تھے کہ خوشی کسے کہتے ہیں۔ اپنی لمبی ڈاڑھی سے لے کر کھردرے جوتوں تک، وہ بھی بالکل بھورے ہوچکے تھے۔ چچا اپنے انداز سے سخت اور سنجیدہ طبیعت کے نظر آتے تھے، اور کبھی کبھار ہی بات کیا کرتے تھے۔
بس ایک ٹوٹو (Toto) تھا جو ڈوروتھی کو ہنساتا تھا، اور اُسے اپنے اردگرد کی چیزوں کی طرح بھورا ہونے سے بچائے رکھتا تھا۔ ٹوٹو بھورا نہیں تھا؛ وہ ایک چھوٹا کالا کتّا تھا، جس کے لمبے اور ملایم بال تھے، اور چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں تھیں جنھیں وہ مٹکاتا اور جھپکاتا رہتا تھا؛ لیکن ٹوٹو کی سب سے پیاری چیز اُس کی ننھی سی ناک تھی۔ ٹوٹو سارا دِن کھیلتا رہتا۔ ڈوروتھی اُس کے ساتھ کھیلا کرتی اور اُسے بہت پیار کرتی تھی۔
ہاں، مگر آج وہ نہیں کھیل رہے تھے۔چچا ہنری دروازے کے باہر بیٹھے پریشان نگاہوں سے آسمان کو تک رہے تھے جو عام دِنوں  سے زیادہ بھورا ہو رہا تھا۔ ڈوروتھی اپنے ہاتھوں میں ٹوٹو کو لیے دروازے پر کھڑی تھی، اور چچا کی طرح آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چچی ایم برتن دھو رہی تھیں۔
دور کہیں شمال کی طرف سے اُنھیں ہوا کی چنگھاڑ سنائی دی۔ چچا ہنری اور ڈوروتھی نے دیکھا کہ آندھی اُن کی طرف دوڑی چلی آ رہی تھی اور اُس کے راستے میں آنے والی لمبی گھاس اِدھر اُدھر لہرا رہی تھی۔ پھر اچانک جنوب کی طرف سے بھی تیز ہوا کی سیٹی اُن کے کانوں سے ٹکرائی، اور جو اُنھوں نے نگاہیں پھیریں تو وہاں لہراتی گھاس نے اُس سمت سے بھی آندھی آنے کی خبر دی۔
چچا ہنری ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ایم! آندھی آ رہی ہے،‘‘ اُنھوں نے اپنی بیوی کو پکارا؛ ’’میں گودام کا خیال رکھنے جا  رہا ہوں۔‘‘ پھر وہ گودام کی طرف بھاگے جہاں گاییں اور گھوڑے رکھے جاتے تھے۔
چچی ایم نے فوراً اپنا کام چھوڑا اور دروازے کی طرف دوڑی آئیں۔ ایک لمحے میں اُنھیں اندازہ ہوگیا کہ تباہی سر پر آ پہنچی ہے۔
’’جلدی، ڈوروتھی!‘‘ وہ چیخیں؛ ’’تہ خانے میں بھاگو!‘‘
ٹوٹو نے ڈوروتھی کے ہاتھوں سے چھلانگ لگائی اور بستر کے نیچے چھپ گیا۔ وہ اُسے پکڑنے کے لیے بھاگی۔ چچی ایم بُری طرح خوف زدہ تھیں۔ اُنھوں نے تہ خانے پر رکھا تختہ ہٹایا اور سیڑھی کی مدد سے چھوٹے، تاریک سوراخ کی تہ میں اُتر گئیں۔ آخر ڈوروتھی نے بھی ٹوٹو کو پکڑلیا، اور اپنی چچی کے پیچھے پیچھے بھاگی۔ ابھی وہ تہ خانے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ ہوا کا ایک طاقت ور جھکڑ آیا اور پورا گھر اس قدر زور سے ہلا کہ ڈوروتھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکی اور اچانک فرش پر گرگئی۔
تب ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔
پورا گھر دو یا تین بار گول گھوما اور پھر آہستہ آہستہ ہوا میں بلند ہونے لگا۔ ڈوروتھی کو ایسا لگا جیسے وہ کسی غبارے میں بیٹھی اُڑ رہی ہو۔
ہوا یہ کہ شمال اور جنوب سے آنے والی ہوائیں عین اُس مقام پر آپس میں ٹکرائیں جہاں ڈوروتھی کا گھر واقع تھا، اور یوں وہ بگولے کا مرکز بن گیا۔ بگولے کے مرکز میں عموماً ہوا ٹھہری ہوئی ہوتی ہے، لیکن چاروں طرف سے ہوا کے بے حد تیز دباؤ سے گھر بلند اور بلند تر ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ بگولے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ بگولے کے دوش پر گھر اُڑتا رہا اور کسی پنکھ (یا پرندے کے پر) کی طرح میلوں کا سفر طے کرتا ہوا بہت دور آگیا۔
گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور ڈوروتھی کے گرد ہوا کا خوف ناک شور تھا؛ لیکن ڈوروتھی کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مزے سے اُڑتی چلی جا رہی ہو۔ جب شروع میں دو تین بار ہوا کی تیز سیٹیاں سنائی دیں اور گھر بُری طرح ڈگمگایا تو اُسے ڈر لگا لیکن پھر اُسے مزہ آنے لگا جیسے وہ کسی جھولے میں بیٹھی ہو۔
ٹوٹو کو یہ سب بالکل پسند نہیں آیا۔ وہ بلند آواز سے بھونکتے ہوئے، کمرے میں کبھی ایک طرف بھاگتا تو کبھی دوسری طرف؛ لیکن ڈوروتھی فرش پر خاموش بیٹھی رہی اور انتظار کرتی رہی کہ دیکھیں، اب کیا ہوتا ہے۔
ٹوٹو پریشانی کے عالم میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے ہوئے ایک بار تہ خانے کے کھلے دروازے کے پاس آگیا اور پھر اُس سوراخ میں گرگیا۔ ایک لمحے کے لیے ڈوروتھی نے سوچا کہ شاید اب وہ کبھی ٹوٹو سے نہیں مل سکے گی۔ پھر اُسے ٹوٹو کا ایک کان دِکھائی دیا۔ وہ فرش پر رینگتی ہوئی سوراخ کے پاس پہنچی اور ٹوٹو کو کان سے پکڑ کر کمرے میں کھینچ لیا۔ اس کے بعد، مزید کسی حادثے سے بچنے کے لیے اُس نے تہ خانے کا دروازہ بند کردیا۔
’’ڈوروتھی نے ٹوٹو کو کان سے پکڑ لیا۔‘‘
جب اسی حالت میں کئی گھنٹے گزر گئے تو ڈوروتھی کا خوف کم ہونے لگا؛ لیکن ساتھ ہی اُسے تنہائی کا احساس بھی ستانے لگا۔ ہوا کی چنگھاڑ اتنی تیز تھی کہ وہ تقریباً بہری ہوچکی تھی۔ ایک بار اُسے خیال آیا کہ جب گھر دوبارہ زمین پر گرے گا تو گھر کے ساتھ ساتھ اُس کے بھی پرخچے اُڑ جائیں گے اور وہ کئی ٹکڑوں میں بکھر جائے گی؛ مگر جب وقت گزرتا گیا اور کوئی بھی خوف ناک واقعہ رونما نہیں ہوا تو اُس نے پریشان ہونا چھوڑ دیا اور اطمینان سے آنے والے وقت اور واقعات کا انتظار کرنے لگی۔ آخرکار، وہ جھولتے ہوئے فرش پر رینگتے رینگتے اپنے بستر کی طرف بڑھی اور اُس پر لیٹ گئی۔ ٹوٹو نے بھی اُس کی نقل کی اور اُس کے ساتھ ہی آکر لیٹ گیا۔
ڈگمگاتے ہوئے گھر اور ہوا کی چیخ و پکار کے باوجود ڈوروتھی کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور وہ فوراً ہی گہری نیند میں چلی گئی۔

گزشتہ سے پیوستہ

Comments