Wizard of Oz - 02 The Council With The Munchkins


In the second chapter - The Council with the Munchkins - of The Wonderful Wizard of Oz, Dorothy founds herself in a very strange but beautiful land. Then little three men and a women appear. Little old woman introduces herself as the witch of North and men as Munchkins, people of the land. What does they point out and what is this strange land? Read the second chapter of this interesting story.
The Wonderful Wizard of Oz is a children's fairytale, written by Layman Frank Baum and illustrated by W. W. Denslow. The book consists of 24 chapters. AntarMantar presents Urdu translation of one new chapter weekly.
دوسرا باب
منچکنوں سے ملاقات

اچانک ایک جھٹکا لگا اور ڈوروتھی بیدار ہوگئی۔ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اگر وہ اپنے نرم بستر پر نہ لیٹی ہوتی تو شاید زخمی ہوجاتی۔ اُس نے اپنے حواس بحال کیے اور سوچنے لگی کہ اُس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا۔ ٹوٹو اُس کے پاس آیا اور اپنی ننھی سی ناک اُس کے چہرے سے رگڑتے ہوئے اُداس آواز میں رونے لگا۔ ڈوروتھی اُٹھ بیٹھی اور حالات کا جائزہ لینے لگی۔ گھر اب حرکت نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی پہلے کی طرح تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے آنے والی سورج کی کرنوں سے پورا کمرہ روشن تھا۔ وہ چھلانگ مار کر بستر سے اُتری، جوتے پہن کر ٹوٹو کو اپنے بازوؤں میں اُٹھایا اور دروازہ کھول دیا۔
گھر کے باہر کا منظر دیکھ کر حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جیسے جیسے وہ اپنے اردگرد کا مشاہدہ کرتی رہی، حیرت انگیز مناظر سے اُس کی آنکھیں پھیلتی گئیں۔
ہوا کے بگولے نے گھر کو ایک بے حد خوب صورت ملک کے بیچوں بیچ بہت آرام سے اُتار دیا تھا۔ چاروں طرف خوش نما سبز گھاس اُگی ہوئی تھی اور قطار در قطار درخت ہی درخت تھے جن پر بہترین اور لذیذ پھل لٹک رہے تھے۔ ہر جانب رنگ برنگے پھولوں کے ڈھیر لگے تھے۔ درختوں اور جھاڑیوں میں موجود نت نئے اور چمکیلے پروں والے پرندوں کی پیاری آوازیں ہر سُو گونج رہی تھیں۔ سرسبز جگہ کے بیچ میں پانی کا چھوٹا سا چشمہ بہ رہا تھا۔ یہ سب آوازیں ایک ایسی ننھی لڑکی کے لیے بہت خوش کن تھیں جس کا تمام تر وقت بھورے اور سوکھے علاقے میں گزرا تھا۔
جب وہ حیرت سے اپنے اردگرد کے اجنبی مگر خوب صورت مناظر دیکھ رہی تھی تو اُسے ایک طرف سے کچھ انوکھے لوگ اپنی طرف آتے ہوئے دکھائی دیے۔ اُس نے ایسے لوگ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اُس نے کہانیوں میں بہت سے عجیب و غریب لوگوں کے بارے میں سنا اور پڑھا تھا؛ لیکن وہ لوگ نہ اُن کہانیوں کی طرح دیوقامت تھے اور نہ ہی بونے۔ بل کہ وہ لوگ  جسامت میں ڈوروتھی کے برابر تھے؛ جب کہ عمر میں اُس سے کافی بڑے لگ رہے تھے۔
وہ ایک عورت اور تین آدمی تھے، اور اُن سب نے عجیب و غریب لباس پہن رکھا تھا۔ اُن کے سروں پر گول ٹوپی تھی جو اوپر سے تقریباً ایک فٹ اونچی نوک دار تھی، اور کناروں پر چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں لٹک رہی تھیں جو اُن کے حرکت کرنے سے بجتی تھیں۔ آدمیوں نے نیلے رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی؛ جب کہ چھوٹی عورت کے سر پر سفید ٹوپی تھی اور اُس نے سفید چوغہ پہن رکھا تھا۔ چوغے میں چھوٹے چھوٹے ستارے ٹنکے ہوئے تھے اور جب اُن پر سورج کی روشنی پڑتی تھی تو وہ ہیروں کی طرح جگمگاتے تھے۔ آدمیوں کا لباس اُن کی ٹوپیوں کی طرح نیلا تھا۔ اُن کے نوک دار جوتے ایسے چمک رہے تھے جیسے اُن پر ابھی ابھی پولش کی گئی ہو۔ ڈوروتھی کو وہ آدمی چچا ہنری کی عمر کے لگے، اُن میں سے دو آدمیوں کی ڈاڑھی تھی۔ لیکن وہ چھوٹی عورت بلاشبہ کہیں زیادہ بوڑھی تھی؛ اُس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا، اُس کے تقریباً تمام تر بال سفید ہوچکے تھے اور وہ بڑی مشکل سے قدم اُٹھا رہی تھی۔
جب وہ لوگ ڈوروتھی کے گھر کے پاس پہنچے اور اُنھوں نے ڈوروتھی کو دیکھا تو وہ ٹھٹک کر رُک گئے اور اس طرح آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے جیسے مزید آگے آتے ہوئے ڈر رہے ہوں۔ پھر وہ چھوٹی بوڑھی عورت ڈوروتھی کی طرف بڑھی، اُسے جھک کر سلام کیا اور میٹھی آواز میں کہنے لگی:
’’انتہائی قابلِ احترام جادوگرنی کو منچکنوں (Munchkins) کی سرزمین پر خوش آمدید! ہم آپ کے بہت ممنون ہیں کہ آپ نے مشرق کی ظالم چڑیل (wicked witch) کو مار ڈالا، اور ہمارے لوگوں کو غلامی سے نجات دلائی۔‘‘
ڈوروتھی نے حیرانی سے اُس کی بات سنی۔ وہ سوچنے  لگی کہ چھوٹی عورت کا اُسے ’جادوگرنی‘ کہہ کر مخاطب کرنا اور یہ کہنا کہ اُس نے مشرق کی ظالم چڑیل کو قتل کیا ہے، اس سب کا کیا مطلب ہے۔ ڈوروتھی تو بہت معصوم اور بے ضرر لڑکی تھی جسے بگولے نے اپنے گھر سے میلوں دور یہاں پہنچا دیا تھا اور اُس نے تو اپنی زندگی میں کبھی کسی چھوٹے سے جان دار کو بھی نہیں مارا تھا۔
چھوٹی عورت کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے اپنی بات کے جواب کا انتظار ہے؛ چناں چہ ڈوروتھی نے جھجکتے ہوئے کہا:
’’آپ بہت اچھی ہیں؛ لیکن آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے۔‘‘
’’ہاں، مگر تمھارے گھر نے تو کیا ہے ناں،‘‘ چھوٹی عورت نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’وہ دیکھو!‘‘ اُس نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کرکے کہا: ’’وہاں دو پاؤں اب بھی نظر آ رہے ہیں جو تمھارے گھر کی لکڑی کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔‘‘
ڈوروتھی نے اُس طرف دیکھا اور خوف سے اُس کی آہ نکلی۔ گھر کے اُس کونے میں لکڑی کے ایک بڑے ٹکڑے کے نیچے دو پاؤں دبے ہوئے نظر آ رہے تھے جن میں نوک دار نقرئی (silver) جوتے تھے۔
’’اوہ! اوہ!‘‘ ڈوروتھی کراہی اور ڈر کے مارے اُس نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے؛ ’’یقیناً گھر اس کے اوپر گر گیا ہوگا۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے،‘‘ چھوٹی عورت نے آرام سے جواب دیا۔
’’لیکن یہ تھی کون؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا۔
’’جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، یہ مشرق کی ظالم چڑیل تھی،‘‘ چھوٹی عورت نے جواباً کہا۔ ’’اُس نے کئی سالوں سے منچکنوں کو زبردستی اپنا قیدی بنایا ہوا تھا اور دن رات اُن کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتی تھی۔ اب وہ سب آزاد ہیں اور اس مہربانی پر تمھارے شکر گزار ہیں۔‘‘
’’منچکن کون ہیں؟‘‘ ڈوروتھی نے سوال کیا۔
’’وہ لوگ جو اس زمین پر رہتے ہیں۔ یہ ملکِ مشرق ہے، جس پر ظالم چڑیل حکومت کرتی تھی۔‘‘
’’کیا آپ منچکن ہیں؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا۔
’’نہیں، میں اُن کی دوست ہوں لیکن میں ملکِ شمال میں رہتی ہوں۔ جب مشرق کی چڑیل کے مرنے کی خبر عام ہوئی تو منچکنوں نے پیغام بھیج کر مجھے بلالیا، اور میں فوراً یہاں آگئی۔ میں شمال کی چڑیل ہوں۔‘‘
’’اوہ، خدایا!‘‘ ڈوروتھی گھبرا گئی؛ ’’کیا آپ اصلی چڑیل ہیں؟‘‘
’’ہاں، بالکل؛‘‘ چھوٹی عورت نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں اچھی چڑیل ہوں اور لوگ مجھے پسند کرتے ہیں۔ میں اُس ظالم چڑیل کی طرح طاقت ور نہیں ہوں جو یہاں حکومت کرتی تھی، ورنہ میں نے خود اپنی طاقت کے زور پر یہاں کے لوگوں کو آزاد کروالیا ہوتا۔‘‘
’’مگر مجھے تو لگتا تھا کہ تمام چڑیلیں ہی ظالم ہوتی ہیں،‘‘ ڈوروتھی نے کہا۔ اُسے یہ سوچ کر ہی خوف آ رہا تھا کہ وہ ایک اصلی چڑیل کے سامنے کھڑی ہے۔
’’ارے، نہیں! یہ بالکل غلط بات ہے۔ سرزمینِ اوز (Oz) پر صرف چار چڑیلیں ہیں؛ جن میں سے دو چڑیلیں اچھی ہیں جو شمال اور جنوب میں رہتی ہیں۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کیوں کہ میں اُن اچھی چڑیلوں میں سے ایک ہوں۔ ہاں، مشرق اور مغرب کی دو چڑیلیں ظالم تھیں؛ جن میں سے ایک تو تمھارے ہاتھوں ماری گئی ہے، اور اب سرزمینِ اوز پر صرف ایک ہی ظالم چڑیل بچی ہے جو مغرب میں رہتی ہے۔‘‘
’’لیکن، چچی ایم تو کہتی تھیں کہ تمام چڑیلیں سال ہا سال پہلے ہی مر گئی تھیں،‘‘ ڈوروتھی نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔
’’چچی ایم کون ہیں؟‘‘ چھوٹی عورت نے سوال کیا۔
’’وہ میری چچی ہیں جو کنساس میں رہتی ہیں، جہاں سے میں آئی ہوں۔‘‘
     شمال کی چڑیل سر جھکا کر نظریں زمین پر جمائے کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اُس نے اوپر دیکھا اور کہا: ’’میں نہیں جانتی کہ کنساس کہاں ہے، اور نہ ہی میں نے آج سے پہلے کبھی اس علاقے کا نام سنا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ کیا وہ تہذیب یافتہ علاقہ ہے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ ڈوروتھی نے جواب دیا۔
’’اچھا، تو پھر یہی وجہ ہوگی۔ میرے علم کے مطابق تہذیب یافتہ علاقوں میں اب نہ کوئی چڑیل  ہے؛ نہ کوئی جادوگر؛ اور نہ ہی کوئی جادوگرنی۔ لیکن، جیساکہ تم یہاں دیکھ سکتی ہو کہ سرزمینِ اوز کبھی بھی تہذیب یافتہ نہیں رہی، کیوں کہ ہمارا باقی تمام دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہم اُن سے الگ ہوکر رہتے ہیں۔ اسی لیے یہاں اب تک چڑیلیں بھی ہیں اور جادوگر بھی۔‘‘
’’جادوگر کون ہیں؟‘‘ ڈوروتھی نے سوال کیا۔
’’اوز خود بھی ایک عظیم جادوگر ہے،‘‘ چڑیل نے اپنی آواز آہستہ کرتے ہوئے سرگوشی کی۔ ’’وہ ہم سب سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ وہ شہرِ زمرد (City of Emeralds) میں رہتا ہے۔‘‘
ڈوروتھی اگلا سوال پوچھنے ہی والی تھی کہ اچانک منچکنوں نے، جو اب تک خاموش کھڑے ہوئے تھے، چیخنا چلّانا شروع کردیا اور گھر کے اُس کونے کی طرف اشارہ کرنے لگے جہاں ظالم چڑیل مری پڑی تھی۔
’’ارے، یہ کیا ہوا؟‘‘ چھوٹی بوڑھی عورت نے اُس طرف دیکھ کر کہا اور پھر ہنسنے لگی۔ مُردہ چڑیل کے دونوں پاؤں آہستہ آہستہ بالکل غایب ہوگئے اور وہاں اب اُس کے نقرئی جوتوں کے علاوہ اب کچھ موجود نہیں تھا۔
’’وہ بہت بوڑھی ہوچکی تھی،‘‘ شمال کی چڑیل نے وضاحت کی، ’’یہی وجہ ہے کہ سورج کی روشنی میں وہ جلد ہی سوکھ گئی اور یوں اُس کا کام تمام ہوا۔ اُس کے نقرئی جوتے اب تمھارے ہیں اور تمھیں وہ پہن لینے چاہییں۔‘‘ وہ اُس طرف گئی، جوتے اُٹھاکر اُن پر لگی مٹی جھاڑی اور اُنھیں ڈوروتھی کے حوالے کردیا۔
’’مشرق کی چڑیل کو اپنے ان نقرئی جوتوں پر بہت غرور تھا،‘‘ ایک منچکن نے کہا؛ ’’اور ان کے ساتھ ضرور کوئی نہ کوئی طلسم جڑا ہوا ہے، مگر ہم اس سے ناواقف ہیں۔‘‘
ڈوروتھی وہ جوتے اُٹھاکر کمرے میں گئی اور اُنھیں میز پر رکھ دیا۔ پھر وہ دوبارہ منچکنوں کے پاس آئی اور کہا، ’’میں بہت پریشان ہوں اور اپنے چچا اور چچی کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔ یقیناً وہ بھی میرے لیے بہت پریشان ہو رہے ہوں گے۔ کیا میرا راستہ تلاش کرنے میں آپ لوگ میری مدد کرسکتے ہیں؟‘‘
منچکنوں اور چڑیل نے پہلے ایک دوسرے کو، اور پھر ڈوروتھی کو دیکھا، اور اپنے سر ہلا دیے۔
’’مشرق یہاں سے دور نہیں ہے۔ اُس طرف ایک بہت بڑا صحرا ہے جسے کبھی کوئی بھی عبور نہیں کرسکا ہے۔‘‘ ایک منچکن نے کہا۔
’’بالکل اسی طرح جنوب میں بھی ہے کیوں کہ میں وہاں رہ چکا ہوں۔ جنوب کوڈلنگوں (Quadlings) کا ملک ہے،‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’میں نے سنا ہے کہ مغرب میں بھی ایسا ہی ہے۔ وہ وِنکیوں (Winkies) کا ملک ہے جس پر مغرب کی ظالم چڑیل حکومت کرتی ہے۔ اگر تم وہاں سے گزرو گی تو وہ تمھیں اپنا غلام بنا لے گی،‘‘ تیسرے نے بتایا۔
’’شمال میرا گھر ہے،‘‘ بوڑھی عورت کہنے لگی، ’’اور اُس کی سرحد پر بھی وہی عظیم صحرا ہے جس نے سرزمینِ اوز کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ مجھے افسوس ہے، میری پیاری بچّی، اب تمھیں ہمارے ساتھ ہی رہنا ہوگا۔‘‘
ڈوروتھی نے جب یہ سنا تو وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ وہ اپنے آپ کو ان اجنبی لوگوں میں تنہا محسوس کر رہی تھی۔ اُس کے آنسو دیکھ کر منچکنوں کو بھی رونا آگیا، اور اُنھوں نے فوراً اپنے رومال نکال کر آنکھوں پر رکھ لیے۔ اُسی وقت چھوٹی بوڑھی عورت نے اپنی ٹوپی اُتاری، اُسے اپنی ناک کی نوک کی سیدھ میں رکھا، پھر اُس نے سنجیدہ آواز میں گنتی گنی ’’ایک، دو، تین‘‘۔ پلک جھپکتے ہی اُس کی ٹوپی ایک تختی میں تبدیل ہوگئی جس پر سفید چاک (chalk) سے لکھا ہوا تھا:
’’ڈوروتھی کو شہرِ زمرد جانے دو۔‘‘
چھوٹی بوڑھی عورت نے تختی اپنی ناک سے ہٹائی، اُس پر لکھی ہوئی عبارت بلند آواز سے پڑھی، اور پوچھا: ’’پیاری بچّی! کیا تمھارا نام ڈوروتھی ہے؟‘‘
’’ہاں،‘‘ ڈوروتھی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو تمھیں شہرِ زمرد جانا چاہیے۔ شاید اوز تمھاری مدد کرے۔‘‘
’’یہ شہر کہاں ہے؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا۔
’’یہ اس سرزمین کے عین مرکز میں ہے، اور اس پر اوز کی حکمرانی ہے؛ وہی عظیم جادوگر جس کے بارے میں، میں نے تمھیں بتایا تھا۔‘‘
’’کیا وہ اچھا آدمی ہے؟‘‘ ڈوروتھی نے تجسس سے پوچھا۔
’’وہ آدمی ہے یا نہیں، یہ تو میں نہیں جانتی، کیوں میں نے اُسے کبھی دیکھا نہیں ہے۔ مگر وہ بہت اچھا جادوگر ہے۔‘‘
’’میں وہاں تک کیسے جاسکتی ہوں؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’تمھیں پیدل چلنا پڑے گا۔ یہ ایک طویل سفر ہے۔ راستے میں کبھی بہت خوش گوار مناظر آئیں گے اور کبھی تاریک اور خوف ناک۔ لیکن مجھے جتنے بھی منتر آتے ہیں میں وہ تمام استعمال کروں گی تاکہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔‘‘
کیا آپ میرے ساتھ نہیں چلیں گی؟‘‘ ڈوروتھی نے التجائیہ انداز میں پوچھا۔ اُسے اس اجنبی سرزمین پر صرف وہ چھوٹی بوڑھی عورت ہی اپنی واحد دوست لگ رہی تھی۔
’’نہیں، میں نہیں جاسکتی،‘‘ اُس نے جواب دیا؛ ’’لیکن میں تمھیں اپنا بوسہ دوں گی، اور ایسے شخص کو کوئی نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں کرسکتا جسے شمال کی چڑیل نے بوسہ دیا ہو۔‘‘
وہ ڈوروتھی کے قریب آئی اور اُس کے ماتھے کو چوما۔ اُس کے ہونٹ جس جگہ مس ہوئے وہاں ایک گول روشن نشان بن گیا، جسے ڈوروتھی نے بعد میں دیکھا۔
’’شہرِ زمرد کو جانے والی سڑک پیلی اینٹوں سے بنی ہوئی ہے، اس لیے تم راستہ نہیں بھٹکو گی،‘‘ چڑیل نے کہا؛ ’’جب تم اوز کے پاس پہنچو تو اُس سے خوف زدہ مت ہونا، بل کہ اُسے اپنی کہانی سنانا اور اُس سے مدد کی درخواست کرنا۔ خدا حافظ، میری پیاری بچّی۔‘‘
تینوں منچکنوں نے سر جھکاکر اُسے الوداع کہا اور اُس کا سفر اچھا گزرنے کی دُعا دی۔ اس کے بعد وہ روانہ ہوگئے اور درختوں کے عقب میں کھوگئے۔ چڑیل نے بھی سر خم کرکے دوستانہ مسکراہٹ سے اُسے دیکھا، بائیں پاؤں کو تین بار گھمایا اور ایک دم غایب ہوگئی۔ ننھا ٹوٹو یہ دیکھ کر حیران ہوگیا اور چڑیل کے غایب ہوتے ہی زور زور سے بھونکنے لگا، حال آں کہ اس سے پہلے جب وہ موجود تھی تو ڈر کے مارے اُس کی غراہٹ بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔
لیکن ڈوروتھی جانتی تھی کہ چڑیل کے لیے اس طرح غایب ہوجانا کوئی مشکل بات نہیں، اس لیے وہ بالکل حیران نہیں تھی۔

گزشتہ سے پیوستہ

Comments