Wizard of Oz - 03 How Dorothy Saved The Scarecrow


In this third chapter of The Wonderful Wizard of Oz - How Dorothy saved the Scarecrow – Dorothy, with wearing the silver shoes of dead witch, starts her journey to the city of emerald to meet wizard of Oz. Everyone there welcomes her because they know that she is the one who set them free from the cruel witch of east.  She spends one night in a big house of a Munchkin where the celebration of freedom is going on. Munchkins think that she is a good witch. The next day on her journey to the city of Emerald with Toto, she sees a Scarecrow hanging. The scarecrow asks her to make him free and she does. He is made of stuff and he wants to have a brain like human. So he joins Dorothy in the journey so he can ask wizard of Oz for some brain.
تیسرا باب
ڈوروتھی اور باگڑبلّا
جب ڈوروتھی اکیلی رہ گئی تو اُسے بھوک کا احساس ہوا۔ اُس نے ڈبل روٹی کے چند ٹکروں پر مکھن لگایا، تھوڑا خود کھایا اور تھوڑا ٹوٹو کو کھلایا۔ پھر اُس نے طاق سے ڈول اُٹھایا اور ٹوٹو کو ساتھ لے کر صاف ستھرے بہتے پانی کے چشمے کی طرف چل دی۔ اِدھر اُس نے ڈول میں پانی بھرا، اُدھر ٹوٹو کو شرارت سوجھی اور وہ درخت کے اوپر چڑھ کر وہاں موجود پرندوں پر بھونکنے لگا۔ ڈوروتھی جب اُسے پکڑنے کے لیے اوپر چڑھی تو اُس نے دیکھا کہ درختوں پر بہت ہی لذیذ پھل لٹک رہے ہیں۔ اُس نے کچھ پھل توڑ لیے اور گھر واپس آگئی۔
گھر آکر اُس نے خود بھی پانی پیا اور ٹوٹو کو بھی پلایا؛ اور پھر وہ شہرِ زمرد کی طرف سفر کے لیے تیار ہونے لگی۔
ڈوروتھی کے پاس دوسرا لباس صرف ایک ہی تھا جو دُھلا ہوا اُس کے بستر کے پاس ٹنگا ہوا تھا۔ وہ رنگین سوتی کپڑے کی فراک تھی جس پر سفید اور نیلے خانے بنے ہوئے تھے؛ اور اگرچہ کئی بار دُھلنے کے باعث اُس کا نیلا رنگ ماند پڑ چکا تھا، پھر بھی دیکھنے میں اچھی لگتی تھی۔ ننھی لڑکی نے اچھی طرح منھ ہاتھ دھویا، صاف ستھری فراک پہنی اور سر پر گلابی ٹوپی رکھ لی۔ اُس نے ایک چھوٹی ٹوکری کو ڈبل روٹی سے بھرا اور اُسے ایک سفید کپڑے سے ڈھک دیا۔ تب اُس کی نظر اپنے پیروں کی طرف پڑی۔ اُس نے سوچا کہ اُس کے جوتے تو بہت پرانے اور تقریباً بے کار ہوچکے ہیں۔
’’طویل سفر میں تو یہ جوتے میرا ساتھ بالکل نہیں دے سکیں گے، ٹوٹو،‘‘ اُس نے کہا۔ ٹوٹو نے اپنی ننھی منّی سیاہ آنکھوں سے اُس کے چہرے کی طرف دیکھا اور اپنی دُم کو ایسے ہلایا جیسے وہ اُس کی بات کا مطلب سمجھ رہا ہو۔
اُسی لمحے ڈورتھی کی نظر میز پر پڑی جہاں مشرق کی چڑیل کے نقرئی جوتے رکھے تھے۔
’’پتا نہیں، یہ مجھے آئیں گے بھی یا نہیں،‘‘ اُس نے ٹوٹو سے کہا۔
اُس نے اپنے پُرانے چمڑے کے جوتے اُتارے اور نقرئی جوتے پہننے کی کوشش کی۔ وہ جوتے اُس کے پاؤں میں اتنے آرام سے آگئے جیسے وہ خاص طور پر اُسی کے لیے بنے ہوں۔
آخر اُس نے اپنی ٹوکری اُٹھالی۔
’’چلو، ٹوٹو،‘‘ اُس نے کہا، ’’ہم شہرِ زمرد جائیں گے اور عظیم اوز سے کہیں گے کہ وہ ہمیں واپس کنساس بھیج دے۔‘‘
اُس نے دروازہ بند کیا، تالا لگایا اور چابی احتیاط سے اپنی فراک کی جیب میں رکھ لی۔ اور یوں، اُس نے اپنے سفر کا آغاز کیا، جب کہ ٹوٹو اُس کے پیچھے پیچھے دُلکی چال چلنے لگا۔
یوں تو وہاں کئی سڑکیں تھیں، لیکن اُسے پیلی اینٹوں سے بنی سڑک تلاش کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔ اپنے جھنجھناتے ہوئے نقرئی جوتوں کے ساتھ وہ شہرِ زمرد کی طرف چل دی۔ سورج خوب روشن تھا اور پرندے چہچہا رہے تھے۔ آپ شاید سوچیں کہ ایک چھوٹی لڑکی ایسے موقع پر بہت خوف زدہ ہوگی جب کہ اُسے ہواؤں نے اپنے وطن سے میلوں دور ایک اجنبی سرزمین پر پہنچا دیا ہو، لیکن ڈوروتھی کو ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی گئی، وہ اُس علاقے کی خوب صورتی دیکھ کر حیران ہوتی گئی۔ سڑک کے  کنارے صاف ستھرے جنگلے لگے تھے جن پر نیلا رنگ کیا گیا تھا، اور اُن کے عقب میں اناج اور سبزیوں کے کھیت کثرت سے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ منچکن بہترین کسان تھے اور بڑے پیمانے پر فصلیں اُگایا کرتے تھے۔ جب وہ ایک گھر کے پاس سے گزری تو لوگ گھر سے باہر آکر اُسے دیکھنے لگے ، اور جہاں جہاں سے وہ گزرتی رہی لوگ اُسے جھک جھک کر سلام کرتے رہے؛ کیوں کہ ہر ایک یہ جان چکا تھا کہ یہی وہ لڑکی ہے جس نے ظالم چڑیل کا خاتمہ کیا ہے اور اُنھیں غلامی سے آزادی دلائی ہے۔ منچکنوں کے گھر دیکھنے میں بڑے عجیب تھے۔ سب گھر گول تھے اور اُن کی چھت پر بڑا گنبد بنا ہوا تھا۔ ہر گھر کا رنگ نیلا تھا، گویا ملکِ مشرق کا پسندیدہ ترین رنگ نیلا تھا۔
جب شام ہوئی اور ڈوروتھی اپنی طویل چہل قدمی سے تھک کر یہ سوچنے لگی کہ رات کہاں گزاری جائے، اُس نے ایک گھر دیکھا جو باقی تمام گھروں کے مقابلے میں بڑا تھا۔ اُس کے سامنے سبززار میں بہت سے لوگ خوشی سے رقص کر رہے تھے۔ پانچ چھوٹے سارنگی نواز حتی المقدور بلند آواز میں موسیقی بجا رہے تھے اور لوگ ہنس رہے تھے اور گیت گا ر ہے تھے۔ قریب ہی ایک بڑی میز پر لذیذ پھل اور میوے، سموسے، کیک اور دیگر مزے مزے کے کھانے موجود تھے۔
تمام لوگوں نے ڈوروتھی کو محبت سے خوش آمدید کیا، اور اپنے ساتھ کھانا کھانے اور رات وہیں گزارنے کی دعوت دی۔ وہ گھر اُس علاقے کے امیر ترین منچکن کا تھا۔ اُس کے دوست وہاں اُس کی دعوت پر جمع تھے اور ظالم چڑیل کی غلامی سے آزادی کی خوشیاں منا رہے تھے۔
ڈوروتھی نے خوب جی بھر کر کھانا کھایا اور بوق نامی امیر منچکن کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ لوگ رقص میں مصروف تھے۔ جب بوق آیا اور اُس نے ڈوروتھی کے پاؤں میں نقرئی جوتے دیکھے تو کہنے لگا:
’’آپ یقیناً کوئی عظیم جادوگرنی ہوں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’کیوں کہ آپ نے نقرئی جوتے پہن رکھے ہیں اور آپ نے ظالم چڑیل کو بھی مار دیا ہے۔ اس کے علاوہ، آپ کی فراک میں سفید رنگ بھی ظاہر ہے اور صرف چڑیلیں اور جادوگرنیاں ہی سفید رنگ کے کپڑے پہنتی ہیں۔‘‘
’’دراصل میرے لباس پر نیلے اور سفید خانے بنے ہوئے ہیں,‘‘ ڈوروتھی نے اپنے کپڑوں کی شکن دور کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ آپ کی نوازش ہے کہ آپ نے یہ رنگ زیب تن کیا ہے،‘‘ بوق کہنے لگا۔ ’’نیلا رنگ منچکنوں کی پہچان ہے اور سفید رنگ چڑیلوں کے لیے مخصوص ہے؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہماری دوست چڑیل ہیں۔‘‘
ڈوروتھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ اُسے جواب میں کیا کہنا چاہیے۔ ہر ایک شخص کو یہی لگتا تھا کہ وہ چڑیل ہے؛ جب کہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ ایک معمولی لڑکی ہے جسے اتفاقاً بگولوں نے ایک اجنبی سرزمین پر پہنچا دیا ہے۔
جب وہ لوگوں کا رقص دیکھتے دیکھتے تھک گئی تو بوق اُسے گھر میں لے گیا اور ایک کمرہ اُسے دے دیا جس میں بہترین بستر لگا ہوا تھا۔ بستر پر نیلی چادر بچھی ہوئی تھی۔ ڈوروتھی صبح تک آرام سے سوئی، اور ٹوٹو بھی اُس کے ساتھ ہی بستر میں لپٹ کر سو گیا۔
صبح اُس نے خوب اچھی طرح ناشتہ کیا۔ اس دوران ایک ننھا منچکن بچّہ، ٹوٹو کے ساتھ کھیلتا رہا اور اُس کی دُم پکڑ کر کھینچتا رہا۔ ڈوروتھی یہ دیکھ کر خوب ہنسی۔ وہاں کے تمام لوگوں کے لیے ٹوٹو حیرت کا سبب تھا، کیوں کہ اُنھوں نے اُس سے پہلے کبھی کوئی کتّا نہیں دیکھا تھا۔
’’شہرِ زمرد یہاں سے کتنا دور ہے؟‘‘ ڈوروتھی نے ناشتہ ختم کرنے کے بعد پوچھا۔
’’میں نہیں جانتا، کیوں کہ میں وہاں کبھی نہیں گیا۔‘‘ بوق نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’لوگوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اوز سے دور رہیں، جب تک اُنھیں واقعی اُس سے کوئی کام نہ ہو۔ لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ شہرِ زمرد یہاں سے خاصا دور ہے اور وہاں تک پہنچنے میں آپ کو کئی دن لگ جائیں گے۔ یہ علاقہ یہاں تو زرخیز اور خوش گوار ہے، لیکن منزل تک پہنچنے میں آپ کا گزر کئی خراب اور خطرناک راستوں سے بھی ہوگا۔‘‘
ڈوروتھی یہ سن کر تھوڑا پریشان ہوئی، مگر وہ جانتی تھی کہ صرف عظیم اوز ہی ہے جو کنساس واپس جانے میں اُس کی مدد کرسکتا ہے، لہٰذا اُس نے بہادری سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔
اُس نے اپنے دوستوں کو الوداع کہا، اور پیلی اینٹوں کی سڑک کے ساتھ ساتھ اپنا سفر دوبارہ شروع کردیا۔ جب وہ سات میل کا سفر طے کرچکی تو اُس نے سوچا کہ کچھ دیر رُک کر آرام کر لیا جائے۔ چناں چہ وہ سڑک کے کنارے لگے جنگلے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر، پرندوں کو اناج سے دور رکھنے کے لیے، ایک اونچے بانس پر باگڑبلّا لٹکا ہوا ہے۔ (باگڑبلّا گھاس پھوس، لکڑی اور کپڑے کا بنا ہوا ایک پُتلا ہوتا ہے جسے پرندوں کو ڈرانے کے لیے باغ میں لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ پرندے فصل خراب نہ کریں۔)
ڈوروتھی نے اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنا ہاتھ رکھا اور غور سے باگڑبلّے کو دیکھنے لگی۔ اُس کا سر گھاس پھوس اور تنکوں سے بھرے ایک چھوٹے تھیلے سے بنا ہوا تھا، اور چہرے جیسا نظر آنے کے لیے اُس پر رنگ کے ذریعے آنکھیں، ناک اور منھ بنائے گئے تھے۔ کسی منچکن کی ایک پُرانی، نوک دار ٹوپی بھی اُس کے سر پر رکھی ہوئی تھی۔ اُس کے باقی جسم پر نیلا لباس تھا جو پرانا دِکھائی دیتا تھا اور اُس کا رنگ ماند پڑ چکا تھا؛ اُس میں بھی جھاڑ جھنکاڑ بھرا ہوا تھا۔ اُس کے پاؤں میں پُرانے جوتے تھے جن کا بالائی حصّہ نیلا تھا۔ باگڑبلّے کی کمر زمین میں گڑے لمبے بانس سے جڑی ہوئی تھی۔
ڈوروتھی پوری توجہ سے باگڑبلّے کے رنگے ہوئے بے ڈھنگے چہرے کو تک رہی تھی کہ اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اُسے لگا جیسے باگڑبلّے نے اُسے آنکھ سے اشارہ کیا ہو۔ پہلے تو اُس نے سوچا کہ یقیناً یہ اُس کی نظر کا دھوکا ہوگا؛ کیوں کہ کنساس میں کبھی کسی باگڑبلّے نے اپنی آنکھوں کو حرکت نہیں دی تھی۔ وہ جنگلے سے نیچے اُتر کر باگڑبلّے کے پاس گئی، ٹوٹو بھی اُس کے ساتھ چلتا ہوا گیا اور بھونکنے لگا۔
’’دن بخیر،‘‘ باگڑبلّے نے قدرے بھاری آواز میں کہا۔
’’کیا یہ تمھاری آواز تھی؟‘‘ ڈوروتھی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’اور کیا! تم کیسی ہو؟‘‘ باگڑبلّے نے سوال کیا۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں، شکریہ،‘‘ ڈوروتھی نے نرم آواز میں جواب دیا؛ ’’تم کیسے ہو؟‘‘
’’میں ٹھیک نہیں ہوں،‘‘ باگڑبلّے نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، ’’کوّوں کو بھگانے کے لیے دن رات یہاں لٹکے رہنا بہت ہی تکلیف دہ کام ہے۔‘‘
’’کیا تم نیچے نہیں اُتر سکتے؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا۔
’’نہیں، کیوں کہ بانس میری کمر سے چپکا ہوا ہے۔ اگر تم مجھے بانس سے اُتارنے کی زحمت کرو تو میں تمھارا بہت شکر گزار ہوں گا۔‘‘
ڈوروتھی  نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور اُسے بانس سے نیچے اُتار لیا۔ تنکوں سے بھرے ہونے کی وجہ سے اُس کا وزن بہت ہلکا تھا۔
’’تمھارا بہت بہت شکریہ،‘‘ باگڑبلّے نے زمین پر اُترنے کے بعد کہا۔ ’’ایسا لگ رہا ہے کہ مجھے نئی زندگی مل گئی ہو۔‘‘
ردّی کے بنے آدمی کو باتیں کرتا اور اپنے ساتھ چلتا دیکھ کر ڈورتھی دنگ تھی ۔
’’تم کون ہو اور کہاں جا رہی ہو؟‘‘ باگڑبلّے نے انگڑائی اور جماہی لیتے ہوئے سوال کیا۔
’’میرا نام ڈوروتھی ہے،‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’اور میں شہرِ زمرد جا رہی ہوں تاکہ عظیم اوز سے درخواست کرسکوں کہ مجھے واپس کنساس بھیج دے۔‘‘
’’شہرِ زمرد کہاں ہے؟ اور یہ اوز کون ہے؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’ارے، تم اُسے نہیں جانتے؟‘‘ وہ حیران ہوگئی۔
’’نہیں، بالکل بھی نہیں؛ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ تم تو دیکھ سکتی ہو کہ میں ردّی ہوں، اور میرے پاس تو دماغ بھی نہیں ہے،‘‘ اُس نے افسردہ انداز میں جواب دیا۔
’’اوہ! مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے،‘‘ ڈوروتھی نے کہا۔
’’تمھارا کیا خیال ہے، اگر میں بھی تمھارے ساتھ شہرِ زمرد جاؤں اور اوز سے کہوں کہ وہ مجھے تھوڑا دماغ دے دے؟‘‘ اُس نے سوال کیا۔
’’میں کچھ کہہ نہیں سکتی، لیکن اگر تم چاہو تو میرے ساتھ چل سکتے ہو۔ اگر اوز نے تمھیں دماغ نہ بھی دیا، تو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے پاس ابھی بھی تو دماغ نہیں ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو،‘‘ باگڑبلّا اعتماد سے کہنے لگا، ’’اگر میرے ہاتھ اور پاؤں اور باقی جسم ردّی کا ہے تو مجھے فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ میں زخمی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی میرا پاؤں کچل دے یا مجھ میں سوئی چبھا دے، تو بھی مجھے فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ میں اُسے محسوس ہی نہیں کرسکتا۔ مگر میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے احمق پکارے۔ اور اگر میرے سر میں تمھاری طرح دماغ کی بجائے بھوسا بھرا ہوگا تو بھلا مجھے کسی بھی بات کا کیسے پتا چلے گا؟‘‘
میں سمجھ سکتی ہوں کہ تمھیں کیسا محسوس ہوتا ہوگا،‘‘ معصوم لڑکی نے اُس کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تم میرے ساتھ چلو گے تو میں اوز سے کہوں گی وہ تمھارے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔‘‘
’’تمھارا شکریہ،‘‘ اُس نے خوشی خوشی جواب دیا۔
پھر وہ سڑک کی طرف بڑھے، ڈورتھی نے اُسے جنگلا پھلانگنے میں مدد کی۔ یوں پیلی اینٹوں کی راہ نمائی میں ایک بار پھر شہرِ زمرد کا سفر شروع ہوگیا۔
شروع میں ٹوٹو کو ایک نئے شخص کا اضافہ پسند نہیں آیا۔ وہ باگڑبلّے کو سونگھتا رہا جیسے اُسے شک ہو کہ اُس کے بھوسے میں چوہے وغیرہ چھپے ہیں، اور وہ اُس پر کئی بار غیر دوستانہ انداز میں غرایا۔
’’ٹوٹو کا بُرا نہ منانا، یہ کبھی نہیں کاٹتا،‘‘ ڈوروتھی نے اپنے نئے دوست سے کہا۔
’’مجھے کوئی ڈر نہیں،‘‘ باگڑبلّے نے جواباً کہا، ’’یہ بھوسے کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لاؤ، میں تمھاری ٹوکری اُٹھا لوں۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ میں تھکتا نہیں ہوں۔ میں تمھیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں،‘‘ وہ ساتھ چلتے چلتے بتانے لگا؛ ’’دنیا میں صرف ایک چیز ہے جس سے مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘
’’وہ کس سے؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا؛ ’’کیا اُس منچکن کسان سے جس نے تمھیں بنایا تھا؟‘‘
’’نہیں،‘‘ باگڑبلّے نے جواب دیا؛ ’’جلتی ہوئی ماچس سے۔‘‘

گزشتہ سے پیوستہ

Comments