Wizard of Oz - 04 The Road Through the Forest

In fourth chapter of "The Wonderful Wizard of Oz", Dorothy continues her journey to the city of emerald through the forest.

چوتھا باب
جنگل کی راہ پر


کئی گھنٹے کے سفر کے بعد سڑک ناہموار ہونے لگی اور اُس پر پیدل چلنا مشکل ہوتا گیا۔ باگڑبلّا جا بجا اُکھڑی ہوئی اینٹوں سے اکثر ٹھوکر کھا کر گر پڑتا۔ کئی جگہ پر اینٹیں اُکھڑی ہوئی تھیں اور کئی جگہ سے غایب تھیں، جس کی وجہ سے سڑک پر گڑھے پڑ گئے تھے۔ ٹوٹو اُن گڑھوں کو پھلانگ لیتا اور ڈوروتھی دوسری طرف سے گھوم کر آجاتی؛ لیکن باگڑبلّا تو دماغ ہی سے محروم تھا، لہٰذا وہ سیدھا چلتا رہتا اور پھر دھڑام سے گڑھے میں جا گرتا۔ البتہ اُسے چوٹ کبھی نہیں لگتی تھی۔ ڈوروتھی اُس کا ہاتھ پکڑتی اور اُسے اُٹھا کر دوبارہ کھڑا کرتی، تو وہ اپنی ہی غلطی پر قہقہے مارکر ہنسنے لگتا۔
یہاں کے باغات دیکھ لگتا تھا کہ اُن کا زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا۔ وہاں گنتی کے چند گھر تھے اور کچھ ہی درختوں پر پھل لگے تھے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے، ویسے ویسے علاقہ سنسان ہوتا چلا گیا۔
جب دوپہر ہونے کو آئی تو وہ راہ کنارے ایک چھوٹی سی ندی کے پاس ٹھہر گئے۔ ڈوروتھی نے اپنی ٹوکری کھولی اور ڈبل روٹی کے کچھ ٹکڑے نکالے۔ اُس نے ایک ٹکڑا باگڑبلّے کو دینا چاہا، لیکن اُس نے انکار کردیا۔
’’مجھے کبھی بھوک نہیں لگتی،‘‘ اُس نے کہا؛ ’’اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایسا ہوں۔ میرا منھ تو بس رنگ کر کے بنایا گیا ہے، اور اگر میں نے کچھ کھانے کے لیے اس میں سوراخ کر دیا تو اس میں بھری ردّی باہر آجائے گی اور میرے چہرے کا حلیہ بگڑ جائے گا۔‘‘
ڈوروتھی نے ایک نظر اُسے غور سے دیکھا اور پھر سر ہلا کر اپنی ڈبل روٹی کھانے لگی۔
’’مجھے اپنے بارے میں کچھ بتاؤ، اور اُس علاقے کے بارے میں بھی جہاں سے تم آئی ہو،‘‘ باگڑبلّے نے ڈوروتھی کا کھانا ختم ہونے کے بعد پوچھا۔ وہ اُسے کنساس کے بارے میں بتانے لگی کہ وہ کیسی جگہ تھی، اور کیسے وہاں ہر چیز بھوری تھی، اور کیسے ہوا کے بگولوں نے اُسے وہاں سے اُٹھا کر سرزمینِ اوز پر پہنچا دیا۔ باگڑبلّا غور سے اُس کی باتیں سنتا رہا، پھر کہنے لگا:
’’میں ایک بات سمجھ نہیں سکا۔ تم اتنا خوب صورت علاقہ چھوڑ کر کنساس جیسے علاقے میں واپس جانا چاہتی ہو جو خشک اور بھورا ہے۔ کیوں؟‘‘
’’تمھارے پاس دماغ جو نہیں ہے،‘‘ ڈوروتھی نے جواب دیا، ’’ہمارے گھر چاہے جتنے بھی بے رنگ، بھورے اور خوشیوں سے خالی ہوں، ہم گوشت پوست اور خون کے بنے ہوئے لوگ اپنے ہی گھر میں رہنا چاہتے ہیں، بھلے کوئی دوسرا علاقہ جتنا بھی خوب صورت کیوں نہ ہو۔ گھر کے جیسی کوئی جگہ نہیں۔‘‘
باگڑبلّے نے آہ بھری۔
’’ہاں، ظاہر ہے کہ میں یہ نہیں سمجھ سکتا،‘‘ اُس نے کہا۔ ’’اگر میری طرح تم لوگوں کے سر میں بھی دماغ کی بجائے بھوسا بھرا ہوتا تو شاید تم سب لوگ خوب صورت مقامات ہی پر رہتے، اور پھر کنساس میں کوئی نہ رہتا۔ یہ تو کنساس کی خوش قسمتی ہے کہ تم لوگوں کے پاس دماغ ہے۔‘‘
’’جب تک ہم سستا رہے ہیں تو کیوں نہ تم بھی مجھے اپنی کہانی سناؤ؟‘‘ ڈوروتھی نے پوچھا۔
باگڑبلّے نے اُسے ایک نظر دیکھا، اور جواب دیا:
’’میری زندگی بہت مختصر ہے، اس لیے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ مجھے پرسوں ہی بنایا گیا تھا۔ اُس سے پہلے دنیا میں کیا کچھ ہوا، میں اس سے بالکل بے خبر ہوں۔ خوش قسمتی سے، کسان نے میرا سر بنانے کے بعد سب سے پہلے میرے کان بنائے، یوں میں کچھ باتیں سننے کے قابل ہوسکا۔ وہاں اُس کے ساتھ ایک دوسرا منچکن بھی موجود تھا، اور میں نے سب سے پہلے کسان کو یہ کہتے سنا:
’تمھیں اس کے کان کیسے لگ رہے ہیں؟‘
’یہ سیدھے نہیں ہیں،‘ دوسرے نے جواب دیا۔
’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، کان تو ہیں نا؛‘ کسان نے کہا۔
’اب میں اس کی آنکھیں بناؤں گا۔‘ پھر اُس نے میری ایک آنکھ بنانا شروع کی۔ جیسے ہی آنکھ مکمل ہوئی، میری نظر کسان پر پڑی اور میں نے اپنے گرد موجود ہر چیز کو تجسس سے دیکھا، کیوں کہ وہ میرے لیے دنیا کی پہلی جھلک تھی۔
’یہ آنکھ تو بہت اچھی لگ رہی ہے،‘ منچکن نے کسان کو دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا؛ ’نیلا رنگ تو ہے ہی آنکھوں کا رنگ۔‘
’میرے خیال میں مجھے اس کی دوسری آنکھ تھوڑی بڑی بنانی چاہیے،‘ کسان نے کہا؛ اور جب اُس نے دوسری آنکھ مکمل کرلی تو مجھے پہلے سے کہیں زیادہ صاف دِکھائی دینے لگا۔پھر اُس نے میری ناک بنائی، اور اُس کے بعد منھ؛ لیکن میں نے کوئی بات نہیں کی، کیوں کہ اُس وقت مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ منھ کس لیے ہوتا ہے۔ میں مزے سے اُنھیں اپنا جسم، ہاتھ اور پاؤں بناتا دیکھتا رہا، اور جب اُنھوں نے میرا سر میرے جسم کے ساتھ کس کے باندھا تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا، میں نے سوچا کہ دوسروں کی طرح میں بھی ایک اچھا آدمی ہوں۔‘
’یہ کوّوں کو اچھی طرح ڈرائے گا،‘ کسان نے کہا؛ ’یہ بالکل آدمی ہی لگتا ہے۔‘
’کیوں کہ یہ آدمی ہی ہے،‘ دوسرے نے کہا اور میں نے اُس کی بات سے اتفاق کیا۔ کسان مجھے اپنی بغل میں دبا کر کھیت میں لے گیا۔ وہاں اُس نے مجھے ایک لمبی ڈنڈی پر لگا دیا، جہاں سے تم نے مجھے اُتارا تھا۔ کسان اور اُس کا دوست تھوڑی دیر بعد وہاں سے چل دیے اور میں اکیلا رہ گیا۔
مجھے اس طرح اکیلے چھوڑ دیا جانا بالکل پسند نہیں آیا؛ چناں چہ میں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن میرے پاؤں زمین تک پہنچ ہی نہیں رہے تھے۔ مجھے مجبوراً وہیں بانس پر لٹکے رہنا پڑا۔ یہ تو بہت تنہائی والی زندگی تھی اور میں نے کچھ دیر پہلے ایسی زندگی کا خواب ہرگز نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے کوّے اور دیگر پرندے کھیت میں آتے، لیکن جیسے ہی اُن کی نظر مجھ پر پڑتی وہ مجھے منچکن سمجھ کر دوبارہ اُڑ جاتے۔ اس سے مجھے کچھ خوشی ہوئی کہ کم از کم میں ایک اہم شخص ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک بوڑھا کوّا میرے پاس سے اُڑتا ہوا گزرا۔ وہ مجھے غور سے دیکھتا ہوا میرے کندھے پر آ بیٹھا اور کہنے لگا:
’تعجب کی بات ہے اگر کسان یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے اتنے بے ڈھنگے طریقے سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ جس کوّے کے پاس ذرا بھی عقل ہو وہ دیکھ سکتا ہے کہ تم گھاس پھوس کے آدمی ہو۔‘ پھر وہ میرے قدموں میں جا بیٹھا اور جی بھر کے اناج کھایا۔ جب دوسرے پرندوں نے دیکھا کہ میں نے اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے تو وہ بھی آکر اناج پر ٹوٹ پڑے۔ یوں تھوڑی ہی دیر میں میرے اردگرد پرندوں کا ہجوم لگ گیا۔
مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں ایک اچھا باگڑبلّا ثابت نہیں ہوسکا؛ لیکن بوڑھے کوّے نے مجھ سے ایک بات کہی جس سے مجھے کچھ تسلی ہوئی۔ اُس نے کہا: ’اگر تمھارے سر میں دماغ ہوتا تو تم بھی دوسروں کی طرح اچھے آدمی ہوتے، بل کہ شاید اُن  سے بھی اچھے۔ صرف دماغ ایسی چیز ہے جو دنیا میں لازمی ہونا چاہیے، پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کوّے ہو یا آدمی۔‘
جب کوّے اُڑ گئے تو میں نے اس بارے میں سوچا، اور فیصلہ کیا کہ مجھے تھوڑا بہت دماغ حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ خوش قسمتی سے، تم وہاں آگئیں اور مجھے بانس سے اتار لیا، اور جیسا کہ تم نے کہا ہے مجھے پورا یقین ہے کہ جوں ہی ہم شہرِ زمرد پہنچیں گے عظیم اوز مجھے دماغ عطا کر دے گا۔‘‘
’’تمھاری بے چینی دیکھتے ہوئے مجھے بھی پورا یقین ہے،‘‘ ڈوروتھی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں واقعی؛ میں بہت بے تاب ہوں،‘‘ باگڑبلّے نے جواب میں کہا۔ ’’اگر کسی کو اس بات کا  علم ہوجائے کہ وہ بے وقوف ہے تو اُسے بہت بُرا محسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’چلو، پھر چلتے ہیں،‘‘ ننھی لڑکی نے اپنی ٹوکری باگڑبلّے کو تھماتے ہوئے کہا۔
اب سڑک کے کنارے جنگلے نہیں لگے ہوئے تھے اور راستہ بھی خاصا ناہموار تھا۔ جب شام ہونے کو آئی تو اُن کے سامنے ایک بڑا جنگل تھا، جس کے درخت اتنے بڑے اور قریب قریب تھے کہ اُن کی شاخیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں اور پیلی اینٹوں سے بنی سڑک ڈھکی ہوئی تھی۔ درخت گھنے ہونے کی وجہ سے وہاں سورج کی روشنی بہت کم پہنچ رہی تھی؛ لیکن مسافر رُکے نہیں اور جنگل میں آگے بڑھنے لگے۔
’’اگر یہ سڑک اندر جا رہی ہے تو یقیناً کہیں نہ کہیں سے باہر بھی نکلتی ہوگی،‘‘ باگڑبلّے نے کہا، ’’اور اگر شہرِ زمرد اس سڑک کے اگلے سِرے پر ہے تو ہمیں اس سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔‘‘
’’یہ بات تو ہر ایک بتا سکتا ہے،‘‘ ڈوروتھی نے کہا۔
’’ہاں بالکل؛ اسی لیے تو میں بھی جانتا ہوں،‘‘ باگڑبلّے نے جواب دیا۔ ’’اگر اس بات کو جاننے کے لیے دماغ کی ضرورت ہوتی تو بھلا مجھے اس بات کی سمجھ کہاں ہوتی۔‘‘
وہ تقریباً ایک گھنٹہ مزید چلتے رہے یہاں کہ روشنی مدھم ہوتی گئی اور وہ اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ ڈوروتھی کو بالکل نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن ٹوٹو سب دیکھ رہا تھا، کیوں کہ اکثر کتّے اندھیرے میں بھی بہت اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں؛ اور باگڑبلّے نے کہا کہ اُسے بھی صاف نظر آ رہا ہے۔ چناں چہ ڈوروتھی نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کسی نہ کسی طرح ساتھ چلتی رہی۔
’’اگر تمھیں کوئی گھر یا کوئی دوسری جگہ نظر آئے جہاں ہم رات گزار سکیں تو مجھے ضرور بتانا،‘‘ ڈوروتھی نے کہا۔ ’’میرے لیے اندھیرے میں چلنا بہت مشکل ہے۔‘‘
وہ تھوڑی ہی دور آگے چلے تھے کہ باگڑبلّا رُک گیا۔
’’مجھے ہمارے دائیں جانب ایک جھونپڑی نظر آ رہی ہے جو لکڑی اور شاخوں سے بنی ہوئی ہے،‘‘ اُس نے کہا۔ ’’کیا ہمیں وہاں چلیں؟‘‘
’’ہاں، ضرور؛‘‘ ننھی بچّی نے جواب دیا۔ ’’میں اب بُری طرح تھک چکی ہوں۔‘‘
چناں چہ باگڑبلّا اُس کا ہاتھ تھامے درختوں سے ہوتا ہوا جھونپڑی تک پہنچا۔ ڈوروتھی اندر داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ ایک کونے میں سوکھے پتّوں کا بنا ہوا بستر لگا ہے۔ وہ فوراً ہی اُس پر گر گئی، ٹوٹو بھی اُس کے ساتھ لیٹ گیا، اور وہ دونوں ہی جلد ہی گہری نیند میں چلے گئے۔ باگڑبلّا چوں کہ کبھی نہیں تھکتا، اس لیے وہ وہیں ایک کونے میں کھڑا رہا اور بہت صبر سے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

Comments